بنگلہ دیش میں اتوار کو متنازع عام انتخابات کے موقع پر اپوزیشن جماعتوں کے حامیوں اور پولیس میں تصادم کے واقعات میں انتخابی عملے کے ایک رکن سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
تشدد کی وجہ سے ملک بھر میں 150 سے زیادہ پولنگ مراکز پر ووٹنگ کا عمل معطل کر دیا گیا۔
ملک کے دسویں عام انتخابات کے لیے پولنگ اتوار کی صبح آٹھ بجے سے شام چار بجے تک ہوئی اور اب ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری ہے۔
بنگلہ دیش کی حزبِ مخالف کی بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی سمیت 20 جماعتوں نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔
اپوزیشن نے اس الیکشن کو ’شرمناک‘ قرار دیا ہے اور ان کے بائیکاٹ کی وجہ سے اگرچہ وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد کی عوامی لیگ الیکشن میں باآسانی فتح حاصل کر لے گی لیکن انتخابات کیقانونی حیثیت پر سوال کھڑے اٹھ رہے ہیں۔
پولنگ سے ایک دن قبل بنگلہ دیش میں کم از کم 100 پولنگ سٹیشنوں کو نذر آتش کیا گیا جب کہ انتخابات سے قبل چند ہفتوں میں پیش آنے والے پرتشدد واقعات میں کم از کم 100 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
ڈھاکہ سے نامہ نگار نتن شریواستو نے بتایا ہے کہ شہر میں ووٹنگ کے لیے تمام اپیلوں اور تیاریوں کے باوجود سڑکیں بالکل سنسان رہیں اور پولنگ سٹیشنوں پر بھی لوگوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔
بنگلہ دیش میں حفاطتی انتظامات کے تحت 50,000 زائد فوجی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں |
ان کے مطابق تشدد کے خوف سے لوگ گھروں سے نکلنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ شہر کے وسط میں جگن ناتھ یونیورسٹی کے پاس ایک کریکر دھماکہ بھی ہوا اور اس طرح کے کچھ دھماکوں کی خبریں شہر کے دوسرے علاقوں سے ملی ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ یہ دھماکہ دیسی کریکر کا تھا اور یہ دھماکے لوگوں کو ڈرانے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ان واقعات کے بعد ڈھاکہ میں سکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے۔
ڈھاکہ کے علاوہ شمالی بنگلہ دیش کے علاوہ ملک کے دور دراز کے علاقوں سے تشدد کی خبریں ملی ہیں۔
حکام کے مطابق دن بھر میں تشدد کے مختلف واقعات میں 12 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں اپوزیشن کے حامیوں کے علاوہ انتخابی عملے کا ایک رکن بھی شامل ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں رنگ پور اور نلفاماری کے اضلاع میں ووٹنگ سے متعلق سامان چھیننے والے افراد کو منتشر کرنے کے لیے فائرنگ کرنا پڑی جس سے چار افراد ہلاک ہوئے۔
ملک میں حفاظتی انتظامات کے تحت انتخابات کے لیے 50 ہزار سے زائد فوجی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں
ڈھاکہ میں صرف آٹھ پارلیمانی نشستوں کے لیے انتخابات ہو رہے ہیں جب کہ کئی نشستیں ایسی بھی ہیں جن پر حکمراں عوامي لیگ کا امیدوار پہلے ہی بلامقابلہ منتخب کر لیا گیا ہے۔
دارالحکومت میں ٹریفک کا نظام مکمل طور پر معطل ہے اور سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کے علاوہ دوسری گاڑیاں نہیں ہیں۔
بنگلہ دیش کی حزبِ مخالف نے انتخاب کے موقعے پر سنیچر کو دو روزہ ہڑتال کی اپیل کی تھی۔
حزبِ مخالف چاہتی ہے کہ یہ انتخابات ایک غیرجانبدار نگراں حکومت کے نگرانی میں ہوتے جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے لیکن شیخ حسینہ واجد کی حکومت اس پر تیار نہیں تھی۔
امریکہ، یورپی یونین اور دولتِ مشترکہ نے بنگلہ دیش میں انتخابات کی نگرانی کرنے کے لیے اپنے مبصرین بھیجنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد بنگلہ دیشی حزبِ مخالف کا کہنا ہے کہ یہ انتخابات قابلِ اعتبار نہیں ہوں گے۔